Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

اسلام میں جانوروں کے حقوق

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2016ء

حقیقت میں یہ جانور ہماری ضروریات کی تکمیل میں ہم انسانوں کیلئے لازم و ملزوم ہیں، اس لئے اسلام نے جس طرح ہم انسانوں کی ایذا رسانی کو شرعی جرم قرار دیا ہے اسی طرح جانوروں کی ایذاء رسانی کو بھی مذہبی گناہ کہا ہے، اور اسلام میں جس طرح انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ثواب کا کام ہے

اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان اور ساری چیزوں کو عظیم مقصد و غایت کے ساتھ وجود بخشا ہے انسان کو صرف اپنی عبادت و بندگی کیلئے پیدا فرمایا ہے اور انسانوں کے فائدہ کے لئے د نیا اور اس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے اور دنیا کو طرح طرح کی مخلوقات سے خوب بنایا اور سنوارا ہے، قسم قسم کے حیوانات (چرند اور پرند) بھی اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے، یہ حیوانات انسانوں کیلئے بہت ہی کارآمد ہیں، ان سب سےہم انسانوں کی بہت سی ضٗروریات پوری ہوتی ہیں، کچھ جانوروں سے گرم لباس و کپڑے (کمبل، شال، ٹوپی، خیمہ اور ڈیرے) چرمی جوتے و چپل اور طرح طرح کے بہت سے چرمی سامان (کوڑا، موزہ، بیگ وغیرہ) حاصل ہوتے ہیں، کچھ جانور کھیتی، سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں کچھ سے دودھ، دہی، مکھن، گھی، پنیر، گوشت اور بہت سی مفید چیزیں نصیب ہوتی ہیں در حقیقت دنیا میں موجود بہت سے جانوروں میں ہم انسانوں کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے اور ہمیں ان سے آرام ہی آرام ملتا ہے، کتاب ہدایت قرآن مجید کی متعدد سورتوں (خاص طور سے سورۃ آل عمران:14، سورہ الانعام:142 سورہ نحل: 80، سورہ شعراء:133، سورہ حج: 30، سورہ مومنون:21، سورہ غافر:79 اورسورہ زخرف:12) کی آیات میں جانوروں سے وابستہ ہیں‘ ان ساری حقیقتوں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، ارشاد الٰہی ہے کہ ’’ اور چوپائے (جانور) بھی اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے ان میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور (بے شمار دوسرے) فائدے بھی ہیں، اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری شان بھی ہے، اور وہ تمہارے بوجھ بھی اٹھاتے ہیں، اور گھوڑے خچر اور گدھے کو (اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور یہ جانور (تمہارے لئے) باعث زینت بھی ہیں‘‘۔ (سورہ نحل: 7،5 مختصراً) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو ہم انسانوں کیلئے مسخر کردیا ہے اور ہمیں ان پر پورا قبضہ اور تصرف عطا فرمایا ہے، ان کو ہمارے تابع فرمان کردیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقیقت نہایت موثر اور بلیغ انداز میں یوں بیان کی ہے کہ’’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان (انسانوں) کیلئے چوپائے (بھی) پیدا کئے ہیں، جن کے یہ مالک ہیں اور ان چوپایوں کو ہم نے ان کا تابع بنادیا ہے، جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کے گوشت (یہ انسان) کھاتے ہیں اور پینے کی چیزیں‘‘۔ (سورہ یٰسین: 71-73)۔دنیا میں موجود سارے حیوانات اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں، دنیا میں ان کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت کا مظہر ہے اور ہم انسانوں کیلئے منفعت، سہولت اور زینت کا باعث ہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف اہم موقعوں پر ان بے زبان مخلوق سے بڑے بڑے کام لئے ہیں اور ان سے اپنی قدرت مطلقہ کا یقین و اعتماد ہم انسانوں کو ان جانوروں کے ذریعہ اہم امور (خاص طور سے دفن وغیرہ کا طریقہ) کی تعلیم دی ہے، حقیقت میں یہ جانور ہماری ضروریات کی تکمیل میں ہم انسانوں کیلئے لازم و ملزوم ہیں، اس لئے اسلام نے جس طرح ہم انسانوں کی ایذا رسانی کو شرعی جرم قرار دیا ہے اسی طرح جانوروں کی ایذاء رسانی کو بھی مذہبی گناہ کہا ہے، اور اسلام میں جس طرح انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ثواب کا کام ہے اسی طرح جانوروں، پرندوں اور چوپایوں کیساتھ بہتر سلوک کرنااجروثواب کاموجب ہے، کتاب و سنت میں اس سلسلہ میں بہت سی روشن تعلیمات اور واضح ہدایات موجود ہیں چنانچہ رحمان و رحیم اللہ تعالیٰ نے ان تمام جانوروں کو بھی ہم انسانوں ہی کی طرح جماعت و گروہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ’’ زمین کے جانور اور ہوا کی چڑیاں بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہیں‘‘۔ (سورہ الانعام: 38) اس بناء پر یہ جانور بھی رحم و کرم اور شفقت و ہمدردی کے مستحق ہیں نیز ان جانوروں کے حقوق کا تذکرہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں(ہود:56، عنکبوت: 60، طہٰ: 54، نازعات:33، سجدہ:27 اور یونس:24) کی آیات کریمہ میں موجود ہے چنانچہ حضرات محدثین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی مشہور کتابوں میں ان کے حقوق کو خاص خاص ابواب کے تحت بہت ہی اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا ہے، ان میں سے چند قابل ذکر حقوق درج ذیل ہیں۔ ان جانوروں کا سب سے اہم حق یہ ہے کہ ہم انسان ان بے زبان جانوروں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سمجھیں اور ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کریں، کیونکہ اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ یہ آخری دین سراسر پیغام رحمت ہے، رحمان و رحیم اللہ تعالیٰ کے آخری رحمت حضرت محمد ﷺ نے زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے ساتھ رحم کرنے کا بہت ہی تاکیدی و عمومی حکم ہی مسلمانوں کو یوں دیا ہے کہ’’مسلمانو! تم زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو تو آسمان والا (رب العرش) تم پر رحمت فرمائے گا‘‘۔ (ترمذی، مستدرک حاکم)
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی رضوان اللہ علیہم نے کہا کہ’’اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا‘‘۔ (مسند احمد) ایک تیسری حدیث میں ان جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم آپ ﷺ نے نہایت ہی ترغیبی انداز میں یوں دیا کہ ’’ ہر تر جگر کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں اجروثواب ہے‘‘۔ (بخاری شریف) ایک اور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ’’ اللہ عزوجل نے ہر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو فرض قرار دیا ہے‘‘۔ (مسلم) یہی وجہ ہے کہ آپﷺنے دور جاہلیت میں جانوروں کے ساتھ رائج تمام ظالمانہ برتائو پر سخت نکیر فرمائی اور سنگدلی اور بے رحمی کے تمام طور طریق کو بالکل مٹادیا چنانچہ آپ ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر اس پر نشانہ لگانے کی سخت ممانعت فرمائی۔ (مسلم، ابن ماجہ) دور جاہلیت میں رائج ایک ظالمانہ طریقہ و عمل (زندہ اونٹ کوہان اور دنبہ کے دم چکی کو کاٹنے) کی نکیر بہت ہی شدت کے ساتھ فرمائی کہ’’ اس طریقہ سے زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا ہے، وہ مردہ ہے‘‘۔ (ترمذی) نیز آپ ﷺ نے زندہ جانوروں کے مثلہ کرنے ان کے کسی عضو کو کاٹنے کی ممانعت فرمائی۔ (ابن ماجہ) اور ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ (بخاری)۔اسی طرح اسلام میں بلاضرورت کسی جانور کے قتل کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ (حاکم) نیز نقصان نہ پہنچانے والے جانوروں (چیونٹی، مینڈک وغیرہ) کا مارنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ’’ آپ ﷺ نے چار جانوروں (چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد) کے مارنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (ابو دائود) ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک طبیب نے دوا وعلاج میں کام آنے والے مینڈک کے مارنے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے مینڈک مارنے سے ان کو منع فرمایا۔ (ابودائود) دین اسلام نے انسانی ضرورت پر جن جانوروں کو
مارنے یا ذبح کرنے کی اجازت دی ہے، ان جانوروں کے ساتھ اس وقت بھی پوری نرمی اور ہمدردی کرنے کا مثالی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ’’ اللہ عزوجل نے ہر مخلوق کے ساتھ حسن و سلوک کرنا فرض کیا ہے، اس لئے جب تم کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقہ سے مارو، اور جب ذبح کروتو اچھے طریقے سے ذبح کروتاکہ تم میں سے ہر آدمی اپنی چھری تیز کرلے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ (مسلم، ابن ماجہ) اور ذبح کے تمام تکلیف دہ طریقوں (خاص طور سے دانت کاٹ کر یا ناخن سے خراش لگا کر ذبح کرنے) کی سخت ممانعت آپﷺ نے فرمائی۔ (بخاری و نسائی شریف)ان بے زبان جانوروں کا دوسرا بڑا حق یہ ہے کہ ان کے چارہ پانی کا پورا خیال رکھا جائے، ہر وقت اور ہر جگہ ان کو کھلایا اور پلایا جائے، کتاب و سنت میں ان کو کھلانے پلانے کی بڑی ترغیب اور تاکید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو سورہ طہٰ میں صاف صاف حکم دیا ہے کہ ’’(ان مختلف قسم کی پیداوار میں سے) تم خود بھی کھائو اور اپنے چوپایوں کو بھی چرائو‘‘۔ (طہٰ:54) ایک حدیث میں آپﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ’’ ہر زندہ جانور کے کھلانے پلانے میں اجروثواب ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم ) نیز ایک حدیث میں آپ ﷺ نے جانور کو بھوکا رکھنے پر سخت وعید سنائی اور بڑی تنبیہ کی ہے، روایت میں ہے کہ آپﷺ ایک (نحیف و لاغر) اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کا پیٹ (بھوک کی وجہ سے) اس کی کمر سے لگ گیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: لوگو! ان بے زبان جانوروں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو(ان کو اس طرح بھوکا نہ مارو) ان پر سوار ہوتو ایسی حالت میں جبکہ یہ ٹھیک ہوں (ان کا پیٹ بھرا ہو) اور ان کو (اسی طرح کھلا پلاکر) اچھی حالت میں چھوڑو۔ (ابو دائود) ایک حدیث میں جانور کو پانی پلانے کو اجروثواب کا موجب بتایا ہے۔ (ابن ماجہ) دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ان کو پانی پلانے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے۔ (بخاری و مسلم) نیز ایک حدیث میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے کھلانے پلانے کو آپ ﷺ نے نہایت موثر و بلیغ انداز میں بڑے ثواب کا کام بتاکر ہم انسانوں کو اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ’’ جو کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگائے یا کھیتی کرے، پھر کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا چوپایہ اس درخت یا کھیتی میں کھائے تو یہ اس مسلمان کیلئے بڑے صدقہ (ثواب) کا کام ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ایک حدیث میں آپ ﷺنے ایک اونٹ کی طرف سے اپنے مالک کے شکایت کرنے پر اس کے انصاری مالک کو سخت تنبیہ فرمائی اور اسے غضب الٰہی سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس بے زبان جانور کے بارے میں تم اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتے، جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے، اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو دکھ پہنچاتے ہو‘‘۔ (ابودائود)۔مذکورہ بالاحقوق کے علاوہ جانوروں کے کچھ اور بھی حقوق ہیں، ان میں سے قابل ذکر یہ ہیں کہ ان کو بے تحاشا نہ مارا جائے، خاص طور پر منہ پر مارنے کی سخت وعید آئی ہے، نیز ان کو تکلیف و اذیت نہ دی جائے، ایذا رسائی کی ہر صوت ممنوع ہے، ان کے جسم کو نہ داغا جائے، بالخصوص چہرہ کو داغنا بالکل ممنوع ہے۔ آپ ﷺ نے ایسا کرنے والوں کو ملعون قرار دیا ہے، ا ور ان پر اللہ کی لعنت بھیجی ہے۔ (مسند احمد) اسی طرح جانوروں کو باہم لڑانے کی سخت ممانعت حدیث میں آئی ہے۔ (ابودائود) بہرکیف کتاب و سنت کی روشنی میں یہ سارے حقوق تسلیم شدہ ہیں اور ان حقوق کی ادائیگی دنیا میں باعث رحمت و برکت اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مغفرت و بخشش کا ذریعہ ہے، چنانچہ احادیث میں ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنے کو رحمت الٰہی اور مغفرت کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ (بخاری و مسلم) ان حقوق کے ادا نہ کرنے میں ہم انسانوں کا سراسر نقصان ہے کیونکہ بے زبان جانوروں کی حق تلفی پر اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب اور اس کی شدید گرفت و مواخذہ کا امکان قوی ہے اور جانور کے ساتھ ظالمانہ سلوک سخت گناہ کا موجب ہے اور عذاب الٰہی کا باعث ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک ظالم عورت کو ایک بلی کے (نہایت ظالمانہ طریقہ سے) مار ڈالنے کے جرم میں عذاب دیا گیا۔ (بخاری و مسلم) (بشکریہ! ماہنامہ الحسن)
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ان بے زبان جانوروں کے ساتھ بڑی زیادتیاں اور بدسلوکیاں کی جاتی رہی ہیں، اسلام کی ان روشن تعلیمات اور واضح ہدایات کے باوجود جانوروں کی حق تلفی عام ہے، ان کے ساتھ ظالمانہ برتائو جاری ہے، شدید ضرورت یہ ہے کہ اسلام کے ان جاودان پیغامات کو عام کیا جائے تاکہ پوری دنیا میں حقیقی امن قائم ہو اور ایک ہی گھاٹ سے انسان، شیر اور بکری پانی پئیں۔

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 066 reviews.